حسنِ سلوک سے غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں
سوال: میری شادی کو قریبا ً آٹھ سال ہو گئے ہیں ۔ تا دم تحریر اولا د سے محروم ہوں ۔ میں ایک سچا مسلمان ہو ں اس لیے اولاد کے بارے میں میرا عقیدہ وہی ہے جو کسی صحیح الخیا ل مسلمان اور موحد کا ہو سکتا ہے ۔ اس محرومی کی ذمہ داری میں اپنی اہلیہ پر نہیں ڈالتا ۔ میں طبی لحاظ سے بالکل تندرست ہو ں ۔ میں نے اسباب کا سرا غ لگا نے میں امکا نی تگ و دو کی ، لیکن المیہ یہ ہے کہ میرے انتہائی عتدال پسند رویے کے باوجو د میرے سسرال والے کچھ مفروضو ں کی بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ میںاپنی بیوی کو طلا ق دینے کی ”سازش“کر رہا ہو ں ، حالا نکہ میں حلفیہ کہہ سکتا ہو ں کہ میں نے آج تک کبھی اس پہلو پر سوچا بھی نہیں ۔ اگر کبھی کبھا ر کسی خانگی با ت پر خفگی کا اظہار کر بیٹھو ں تو میری اس خفگی کو فوراً ارا دہ طلا ق سے وابستہ کر دیا جاتاہے ، اس لیے بعض اوقات مجھے ناقابلِ بر داشت با تو ں سے بھی اغما ض برتنا پڑتا ہے ۔ میں نے سسرال والو ں کی غلط فہمی دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے ، مگر وہ مطمئن نہیں ہوئے ۔ میں طلا ق کی سنگین نزاکتو ں اور دوسری شادی کی پریشانیو ں سے کما حقہ آگا ہی رکھتا ہو ں ، اس لیے کبھی ایسا خیال دما غ میں نہیں لا تا۔ اس کے برعکس وہ محترمہ اکثر کہتی ہیں : میں جانتی ہو ں آپ مجھ سے بیزار ہیں ،میں چلی جا تی ہو ں ۔ آپ کوئی اچھی سی دوسری بیوی کر لیجئے ۔آپ ہی فرمائیے کہ ایسی صور ت میں کیا کیا جائے میری حالت تو کچھ ایسی ہے کہ
نہ بھا گا جائے مجھ سے نہ ٹھہرا جائے ۔(عبدالجبار ۔ پاکپتن)
جوا ب : آپ کی الجھن واقعی قابلِ افسوس ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی ر حمت سے ما یوس نہیں ہو نا چاہیے ۔ منا سب ہے کہ آپ دونو ں کسی قابل ڈاکٹر سے اپنا مکمل طبی معائنہ کرائیں ۔ اس سے پتہ چل جائے گاکہ اصل نقص کس فریق میں ہے۔ اس کے بعد اگر مر ض قابلِ علا ج ہو تو علاج کرایا جائے ۔ ممکن ہے علا ج سے آپ کا دامنِ امید بھر جائے اور آپکو کوئی غیرپسندیدہ قدم نہ اٹھانا پڑے ۔ سرِ دست آپ کو یہی مشورہ دیا جا سکتاہے کہ بیوی کے اعتما دکو کسی قیمت ٹھیس نہ پہنچائیے ۔ زبانی با تو ں کے سا تھ ساتھ عملی طور پر اس کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آئیے ۔ کیونکہ حسنِ سلوک ہی سے غلط فہمیا ں دور ہو سکتی ہیں۔ آپ کے خیا لات ہر لحاظ سے قابلِ ستائش ہیں ۔
بائیں ہاتھ کا استعمال
سوال : میرے بیٹے کی عمر پو نے پا نچ سال ہے۔ قدر تی طور پر وہ با ئیں ہا تھ سے کام کر تاہے ۔ ہم نے بہت کو شش کی کہ وہ دایا ں ہا تھ استعمال کرنے لگے۔ چنددن قبل اس پر سختی بھی کی گئی۔اس سے وہ ہکلانے لگا ۔ آپ نے عبقری کے کسی شمارے میں ہکلا ہٹ کا ایک سبب زبر دستی دائیں ہا تھ کا استعمال قرار دیا تھا ۔ اس لیے میں نے اسے بایا ں ہا تھ استعمال کرنے سے منع نہیں کیا ۔ آہستہ آہستہ اس کی ہکلاہٹ جا تی رہی۔ اب وہ کھا نابھی بائیں ہا تھ سے کھا تا ہے اور کہتاہے کہ میرا دایا ں ہا تھ یہی ہے ۔ ہم نے اسے کھلی چھٹی دے دی ہے ، جس ہا تھ سے چاہے کھا ئے ۔ اسلا م کی نظرمیں بعض مواقع پر بائیں ہا تھ کا استعمال سخت نا پسندیدہ ہے ۔ اس لیے کوئی ایسا علاج بتائیے کہ وہ دایا ں ہا تھ استعمال کرنے لگے اور ہکلا ہٹ بھی پیدا نہ ہو۔ (فہمیدہ خاں۔ نوا ب شاہ )
جوا ب : اگر کوئی بچہ بائیں ہا تھ کے استعمال کو ترجیح دیتا ہے ، تو اسے دایا ں ہا تھ استعما ل کرنے پر مجبو ر نہ کیا جائے ، ورنہ وہ لکنت کا شکا ر ہوجائے گا ۔ آپ نے یہ علا ج اپنے بچے پر آزمایا اور اس کا نتیجہ اچھا رہا ۔ اب دورانِ گفتگو بچے کا ہکلا نا ختم ہو گیا ہے تو آپ کسی نئی الجھن میں نہ پڑیں ۔ یہ درستہے کہ شرعی نقطہ نظر سے دائیں ہا تھ کا استعمال احسن اور پسندیدہ ہے لیکن اگر کوئی بچہ قدر تی طور پر بائیں ہا تھ سے کھانے پینے لگتا ہے تو اسے معیو ب نہیں کہا جا سکتا ۔ کیونکہ فطرت کو بدلنا انسان کے بس کی بات نہیں ۔ علاوہ بریں مطمئن رہیے جو بچے بائیں ہا تھ سے کام کر رہیں ہیں ان کی کارکر دگی پر چنداں بُرا اثر نہیں پڑتا ۔ آج کل خوشخطی پر ویسے بھی خاص توجہ نہیں دی جا تی ۔ اگر خط اچھا نہ ہو اتو اتنی بات بہر حال یقینی ہے کہ اسے اپنے خیالات کے تحریری اظہا رمیں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی ۔ بہتر یہ ہے کہ بچے کو ا س معاملے میں اس کے حال پر چھوڑ دیں ۔ دنیا میںسینکڑوں آدمی ایسے ہیں جو بایاں ہا تھ استعمال کرنے کے عادی ہیں اور بڑی خوش اسلوبی سے زندگی گزارتے ہیں۔
میاں بیوی کا آپس میں اختلاف
میں نے زندگی میں بڑی ٹھو کریں کھا ئی ہیں ۔ ایف ۔اے تک تعلیم حاصل کی ہے ۔ ایک دو جگہ ملا زمت کی لیکن گھر کے اخراجا ت پو رے نہ کر سکا ۔ مجبو راً چھوڑ کر اب پان کی دکان کھول لی ہے۔ آج کل کی تھوڑی سی آمدنی کے سہا رے زند گی کے دن پو رے کر رہا ہو ں ۔ ما ں باپ نے زبر دستی سولہ سال کی ایک اَن پڑھ اور لڑاکا لڑکی سے شا دی کر دی ہے ۔ ہم دونو ں کی آپس میں بالکل نہیں بنتی۔ والدین بھی اب اس کی حرکتو ں سے تنگ آگئے ہیں اور مجھے مجبو ر کر رہے ہیں کہ اپنی بیوی کو لے کر الگ ہو جا ﺅ ں۔ سخت مشکل ہے ، آمدنی اتنی قلیل ہے کہ الگ سے دونو ں کی گزر بسر بڑی مشکل ہو گی ۔ والد ین کو چھوڑنے کو دل مانتا نہیں ۔ بیوی کو طلا ق نہیں دے سکتا کہ ایک دو ماہ تک وہ بچے کی ما ں بننے والی ہے ۔ سا س اور سسر اپنی بیٹی کو سمجھانے کے بجائے اسے الٹا مزید شہ دے کر ہما ر ے خلا ف بھڑکاتے رہتے ہیں ۔ لے دے کے اب ایک ہی صور ت باقی رہ گئی ہے ، خو دکشی کر لو ں تو شا ئد اس طر ح میری جا ن روزانہ کے جھگڑو ں سے چھوٹ جا ئے !(اعظم علی ، کرا چی )
جوا ب : پنواڑی کا کام کرنے میں کوئی برائی نہیں ۔اگر کسی بہتر کا م کے ملنے کا امکان نہیں، تو اسی کام سے گزراوقات کریں ۔ عین ممکن ہے کہ آپ کی آمدنی میں خاطر خوا ہ اضافہ ہو جائے ۔ خو دکشی کرنے ، بیوی کو طلاق دینے اور ایک اور شا دی کرنے کا خیا ل چھوڑ یں ، اپنی بیوی کو سمجھا ئیں کہ گھر میں رہنے کا سلیقہ کیا ہو تاہے ۔ اگر وہ اپنی ” مو جو دہ حالت “کی وجہ سے گھر کاکام کرنے کے قابل نہیں توآپ اپنے والد ین کو سمجھائیں کہ وہ وقتی طور پر ” بحالتِ مجبو ری “ لیٹی رہتی ہے ، لیکن آخر اس حالت میں کچھ نہ کچھ کام تو کیا ہی جا سکتا ہے ۔ آپ کے حالات کا علا ج یہ ہے کہ آپ کی بیو ی آپ کے والدین کے ساتھ گھل مل کر رہے ، بچے کی پیدا ئش کے بعد آپ کے حالات کسی حد تک بہتر ہو جائیں گے ، کیونکہ قدرت آپ کے والدین کے لیے آپ کے بچے میں ایک نئی دلچسپی کا سامان مہیا کر دے گی ۔
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 440
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں